خوابوں کی بات آنکھوں سے ٹالی نہیں گئی
خوابوں کی بات آنکھوں سے ٹالی نہیں گئی
اک شب بھی میری خام خیالی نہیں گئی
اس کا ہی ساتھ مجھ کو میسر نہیں ہوا
یوں تو مری دعا کبھی خالی نہیں گئی
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی اکیلا رہا مگر
چھوٹی سی بات دل سے نکالی نہیں گئی
ساتھ اپنے میری نیند بھی لے کر چلا گیا
جب سے گیا وہ آنکھ کی لالی نہیں گئی
اس نے بھی صاف گوئی سے دامن چھڑا لیا
خوش فہمی اپنے دل سے بھی پالی نہیں گئی
یوں اس کی عادتوں میں تغافل شمار تھا
رشتوں کی باگ ڈور سنبھالی نہیں گئی
الکاؔ وہ جس نے پھونک دیا میرا آشیاں
یادوں سے عمر بھر وہ دوالی نہیں گئی