سد راہ آپ اگر لغزش رفتار نہ ہو
سد راہ آپ اگر لغزش رفتار نہ ہو
راہرو کو رہ دشوار بھی دشوار نہ ہو
دوریاں دورئ منزل کے توہم کی تھیں
دیکھ نزدیک رگ جاں ہی کہیں یار نہ ہو
کر سکے کیسے جلا کوئی اس آئینے پر
بار صیقل بھی اٹھانے کو جو تیار نہ ہو
کہیں اس کے لئے منزل کی کھلی ہے آغوش
جس میں جوش سفر کوچۂ دل دار نہ ہو
جوش وحشت میں نکل جائیے بستی سے مگر
سر کہاں پھوڑیے جب سامنے دیوار نہ ہو
حاصل گریۂ شب کیا یہ گداز شبنم
دامن سبزہ و گل بھی جو گہر بار نہ ہو
کسی گل بوٹے کا کیا ہوگا نگہباں عارفؔ
جو کہ خود اپنے گلستاں کا وفادار نہ ہو