فضائے قرب میں بیتابیٔ دل بڑھتی جاتی ہے
فضائے قرب میں بیتابیٔ دل بڑھتی جاتی ہے
محبت کی تڑپ منزل بمنزل بڑھتی جاتی ہے
ادھر بارش مسلسل جلوہ ہائے بے محابا کی
ادھر محدود نظارے کی مشکل بڑھتی جاتی ہے
پہنچتا جا رہا ہوں اوج ادراک حقیقت تک
برابر ہمت قطع منازل بڑھتی جاتی ہے
ادھر میرے لئے چشم طلب خوب انجمن ان کی
ادھر بے گانگیٔ اہل محفل بڑھتی جاتی ہے
یہی موسم ہے برق و آشیاں کے چھیڑ کا موسم
بہار آئی تو کچھ فکر عنادل بڑھتی جاتی ہے
جلانے کو تو پروانہ جو پائے سب جلا ڈالے
مگر افسردگیٔ شمع محفل بڑھتی جاتی ہے
تلاش جوئے شیر آساں جو عزم کوہ کن بھی ہو
سہولت ڈھونڈنے والوں کی مشکل بڑھتی جاتی ہے
بہار تازہ آنے کو ہے پھر عارفؔ گلستاں میں
بہر سو نغمہ سنجیٔ عنادل بڑھتی جاتی ہے