حسن کے گن گن سکوں یہ گن کہاں رکھتا ہوں میں
حسن کے گن گن سکوں یہ گن کہاں رکھتا ہوں میں
لب نہیں کھلتے مگر ذوق بیاں رکھتا ہوں میں
لو جہاں دی شمع نے میں بھی تڑپ کر جل بجھا
فطرت پروانۂ آتش بجاں رکھتا ہوں میں
پھر مرے دامن میں کوئی پھول کھلتا ہی نہیں
جب ذرا قابو میں چشم خوں فشاں رکھتا ہوں میں
بے لٹائے کٹ نہیں سکتی متاع عشق دوست
دولت بیگانۂ خوف زماں رکھتا ہوں میں
گلشن جمہور ہو یا جنت مزدور ہو
کچھ الگ ان سے زمین و آسماں رکھتا ہوں میں
توڑ دیتا ہے طلسم ہر نظام پر فریب
دل میں جو درد کساں و نا کساں رکھتا ہوں میں
خرمن باطل انہیں سے ہوگا عارفؔ شعلہ رو
فکر کی ہر موج میں وہ بجلیاں رکھتا ہوں میں