سبھی سے دور بیاباں میں رہ رہے ہیں ہم

سبھی سے دور بیاباں میں رہ رہے ہیں ہم
نہ سن رہے ہیں کسی کی نہ کہہ رہے ہیں ہم


رواں ندی تو نہیں ہے مگر ہوا کے سنگ
غبار بن کے زمانے سے بہہ رہے ہیں ہم


کسی غریب کے ٹوٹے ہوئے مکاں کی طرح
ذرا ذرا ہی سہی روز ڈھ رہے ہیں ہم


کھلی کتاب سی یہ زندگی ہماری ہے
ورق ورق ہیں اڑے سب نہ تہ رہے ہیں ہم


بھٹک رہے ہیں تبسم کی چاہ دل میں لیے
ملے ہے رنج فقط جس جگہ رہے ہیں ہم


ہمیں بھی کھل کے چمکنے نہیں دیا صابرؔ
جسے ہو ابر نے گھیرا وہ مہ رہے ہیں ہم