نکل پڑا ہے وہ سورج نئی تپن لے کر
نکل پڑا ہے وہ سورج نئی تپن لے کر
چلا ہے لے کے وہ برچھی کہ پھر کرن لے کر
جو میرے حصہ کا بادل ہے کیوں نہیں برسا
کہاں میں جاؤں بھلا تن کی یہ اگن لے کر
ہر ایک شخص گیا چھوڑ کر مجھے آگے
کہیں میں مر ہی نہ جاؤں یہی جلن لے کر
فقیر ہم ہیں کہ جھولا اٹھا کے چل دیں گے
کہاں کہاں لیے پھرتے رہیں گے دھن لے کر
زمیں پہ چاند ستارے اتار لائیں گے
چلے ہیں دل میں ہم اپنے یہی لگن لے کر
برہ کی ماری میں برہن کہاں سے سکھ بھوگوں
چرا کے میری خوشی سب گیا سجن لے کر
گلاب ہونٹوں میں زلفوں میں یاس میں ان کے
وہ گھر سے نکلے ہیں خوشبو بھرا بدن لے کر
دیار یار میں ہم چھوڑ آئے دل صابرؔ
کہ لوٹ آئے ہیں اپنا نڈھال تن لے کر