خیال و خواب میں دنیا صدا بسائی گئی
خیال و خواب میں دنیا صدا بسائی گئی
اسی لئے تو حقیقت سے آشنائی گئی
تمہاری وجہ سے ملتا تھا ہر کسی سے میں
رہے نہ تم تو سبھی سے وہ آشنائی گئی
طویل رات لگے اب نہ دن لگے چھوٹا
پرانے لوگ گئے داستاں سرائی گئی
مرے بدن کی حدوں تک کیا مجھے محدود
یہ کس حساب سے مجھ کو سزا سنائی گئی
تمہارے ہجر میں یہ حال ہو گیا میرا
تمام رات ہی آنکھوں میں نیند آئی گئی
محبتوں کا صلہ بس یہی ملا صابرؔ
ہوئی جہان میں رسوائی پارسائی گئی