سب جیت کر بھی مات سے آگے نہیں گیا

سب جیت کر بھی مات سے آگے نہیں گیا
وہ شخص میری ذات سے آگے نہیں گیا


نا ممکنات سے ہی تھا آغاز زندگی
بزدل تو ممکنات سے آگے نہیں گیا


ٹھہرا ہے وقت آج بھی بچھڑے تھے ہم جہاں
اک پل بھی غم کی رات سے آگے نہیں گیا


عمروں کا انتظار وہ جھولی میں ڈال کر
دو چار پل کے ساتھ سے آگے نہیں گیا


غم ہجر کا ہے یا اسے شوق وصال ہے
انساں غم حیات سے آگے نہیں گیا


جتنے لگے ہیں زخم مرے دوستوں کے ہیں
دشمن تو صرف گھات سے آگے نہیں گیا


مٹی کے ہاتھ عشق کی مٹی پلید ہے
تو بھی ہوس کی بات سے آگے نہیں گیا


ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے جانا تھا چاند پر
افسوس چاند رات سے آگے نہیں گیا


میں دور سے ہی دیکھ کے خوش ہو گئی اسے
اور وہ بھی خواہشات سے آگے نہیں گیا