کسی کے پاؤں کی رگڑ سے آگ سی لگی تو تھی کدھر گئی
کسی کے پاؤں کی رگڑ سے آگ سی لگی تو تھی کدھر گئی
نظر تو آئی تھی مجھے ذرا سی دیر روشنی کدھر گئی
میں اس کے لفظ لفظ کی بناوٹوں میں گم تھا جب ہوا چلی
جو میرے دل کی میز پر کتاب تھی کھلی ہوئی کدھر گئی
بس ایک موڑ کیا کٹا کہ واپسی کا راستہ ہی کھو گیا
میں ڈھونڈ ڈھونڈ تھک گیا یہیں تو تھی مری گلی کدھر گئی
میں بھول آیا ہوں کہیں کہ چھین لے گیا کوئی خبر نہیں
جو میں نے رب سے پائی تھی مرے نصیب کی خوشی کدھر گئی
اداسیوں کے دشت نے تھکا دیا بجھا دیا سلا دیا
وہ میری آنکھ میں جو تھی سمندروں سی تازگی کدھر گئی