ساری بات نہ پوچھا کر
ساری بات نہ پوچھا کر
کچھ خود بھی تو سمجھا کر
میں بچھنے کی چیز نہیں
پاگل مجھ کو اوڑھا کر
اس نے منزل پا لی ہے
لیکن مجھ کو بھٹکا کر
لوگ تجھے پہچانیں گے
ہر دن ایک تماشا کر
دروازے کچھ چھوٹے ہیں
تھوڑا جھک کر نکلا کر
پکنے کو ہے سرخ انار
زینہ دھیرے اترا کر
دنیا گونگی بہری ہے
جو منہ آئے بولا کر
موتی بھی مل جائیں گے
گہرائی میں اترا کر