ساعتوں کا زندانی
بس اسٹاپ پر دو منٹ کی ملاقات
بس دو منٹ کی
حالانکہ اس لمبی مدت میں کب نہیں دیکھا تمہیں
کب نہیں ملا
کل بھی بہت دیر تک باتیں کیں خوابوں کے نگر میں
یہ کیا حال ہے اتنے دنوں کہاں رہیں وغیرہ وغیرہ
سوال کے سمندر میں سینکڑوں لہریں آئیں
وہی پرانی عادت کہ کچھ بتایا کچھ نہیں
پھر خاموشی
اب جاؤں میں گھر آئیے نا
ہارن کے شور میں سب آواز ڈوب گئی
کچھ دیر ٹھہرو نا چلو نا لائبریری کے لان میں چل کر بیٹھیں
کوئی بول رہا تھا اندر ہی اندر
اچانک گھڑی پر نظر پڑی اور میں اچھل پڑا
راستہ بس ٹرام ٹیکسی لوگوں کی بھیڑ
قلا بازیاں کھاتا ہوا
آفس کے دروازے تک پہنچا تو یاد آیا
کہ بس اسٹاپ پر دو منٹ کی ملاقات