روح کو جگمگانے کی کوشش نہ کی زیست غفلت میں ساری بسر ہو گئی
روح کو جگمگانے کی کوشش نہ کی زیست غفلت میں ساری بسر ہو گئی
رات دن ہو گئے سب کے سب رائیگاں میری ہستی کدھر سے کدھر ہو گئی
مجھ کو آواز دیتے رہے روز و شب تیرے لطف و کرم میں یہ آ پائی کب
تو نہیں جب ملا تو ہوا یہ غضب ہر تمنائے دل در بدر ہو گئی
تجھ کو پانا تو یا رب تھا آساں بہت تجھ کو پانے کی کوشش ہی میں نے نہ کی
زندگی ہر قدم جیسے اک بوجھ سی میری سانسوں کی رفتار پر ہو گئی
اس کہانی کی کوئی حقیقت نہیں زندگانی کی کوئی حقیقت نہیں
اپنے ہونے سے وہ با خبر ہو گئے تیرے ہونے کی جن کو خبر ہو گئی
لب پہ نیلمؔ کے ہر دم یہی ہے دعا ایسے بندوں میں رکھنا اسے بھی سدا
جن پہ تیری عنایت کا ہے سلسلہ تیری رحمت کی جن پر نظر ہو گئی