آئینہ جسم سے ہے ملاقات کے لیے
آئینہ جسم سے ہے ملاقات کے لیے
بیتاب سی ہے روح تری ذات کے لیے
ملنا تھا رب سے کر کے بدن کو مثال خاک
اس کو سنوارے جاتے تھے کس بات کے لیے
پرسان حال حشر میں کوئی نہیں ہے آج
بے چین سب ہیں تیری عنایات کے لیے
گر کچھ نہیں تو اشک ندامت ہی ہوتے ساتھ
نذرانہ کچھ تو ہوتا تری ذات کے لیے
نیلمؔ عمل کے جلتے چراغوں کو رکھنا ساتھ
کچھ روشنی تو چاہیے اس رات کے لیے