رت بدلی رے
موسم باہیں کھول رہا ہے
گدرائی ہے شام بسنتی
دن چپکے سے دیکھ رہا ہے
لمحوں کا اک تھال سنہرا
دل نے کیسے تھام رکھا ہے
آنچل میں ہے ایک ستارہ
جھلمل جھلمل بول رہا ہے
دھک دھک دھک دھک ایک ہی بولی
دل کا پنجرہ کھول رہی ہے
بے چینی کا رقص انوکھا
اک اک سر کی تال عجب ہے
خوشبو کی بھی آنچ غضب ہے
سارا آنگن دہک رہا ہے
نظم سب کچھ نہیں لکھ سکتی
سر نہوڑاے
چباتی رہتی ہے ناخن
کھرونچتی رہتی ہے دل
بھیگی ہوئی ہتھیلی سے
مسل دیتی ہے سارے منظر
ہوا خاک بھر دیتی ہے
نظم کی آنکھوں میں
پتھر کی سل
کچل دیتی ہے نظم کی پوریں
اور نظم کتبے نہیں لکھ سکتی