رسوا کیا ہے اس نے جہاں بھر کے سامنے
رسوا کیا ہے اس نے جہاں بھر کے سامنے
پردے میں چھپ گیا ہے مجھے کر کے سامنے
سجدہ ہے انہدام ہے کیا ہے مجھے بتا
قصر بدن گرا ہے کسی در کے سامنے
عریانی بڑھ رہی ہے مرے گھر کے بیچوں بیچ
دیواریں اٹھ رہی ہیں مرے گھر کے سامنے
یہ وقفۂ نماز بھی کتنا طویل ہے
کب سے کھڑا ہوں یار کے دفتر کے سامنے
کیسے چراغ سے کروں شکوہ کہ جب مری
چشم نظارہ بجھ گئی منظر کے سامنے
پوچھے کوئی جو راز کے دل کا تو یہ کہو
اک گھر ہے اور گھر بھی سمندر کے سامنے