رخ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت
رخ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت
جمی ہوئی ہے ابھی گرد ماہ و سال بہت
گریز پا ہے جو مجھ سے ترا وصال تو کیا
مرا جنوں بھی ہے آمادۂ زوال بہت
مجھے ہر آن یہ دیتا ہے وصل کی لذت
وفا شناس ہے تجھ سے ترا خیال بہت
کتاب زیست کے ہر اک ورق پہ روشن ہیں
یہ تیری فردہ نگاہی کے خد و خال بہت
پلٹ گئے جو پرندے تو پھر گلہ کیا ہے
ہر ایک شاخ شجر پر بچھے ہیں جال بہت
تمہیں ہے ناز اگر اپنے حسن سرکش پر
تو میرا عشق بھی ہے روکش جمال بہت
اذان صبح کی ہر لے کی تار ٹوٹ گئے
فروغ ظلمت شب کا ہے یہ کمال بہت
کسی بھی پیاس کے مارے کی پیاس بجھ نہ سکی
سمندروں میں تو آتے رہے اچھال بہت