رک رک کے کبھی مڑ کے تجھے دیکھ رہا ہوں
رک رک کے کبھی مڑ کے تجھے دیکھ رہا ہوں
میں تیری جدائی سے بہت خوف زدہ ہوں
اس شخص سے ملنے کی جسارت ہی نہیں کی
خوابوں کے دریچے سے جسے جھانک رہا ہوں
میں تندئ حالات سے خائف نہیں ہوتا
اے خاک نشینو میں بگولوں میں پلا ہوں
دوری کی کوئی لہر نہ لے جائے بہا کر
چاہت کے سمندر میں سفر کر تو رہا ہوں
اک سمت اندھیرا ہے تو اک سمت کڑی دھوپ
حالات کے اک ایسے دوراہے پہ کھڑا ہوں
ہر سمت نئے دکھ کے سمندر کی صدا ہے
میں ترک تعلق کے جزیرے پہ کھڑا ہوں
تم قطع مراسم پہ ہو آمادہ تو کیا ہے
یہ زہر تو اک عمر سے میں چاٹ رہا ہوں
آئے گی مرے جسم سے اخلاص کی خوشبو
میں پھول ہوں اور پیار کی ٹہنی پہ سجا ہوں