روز اول ہی خطا کار بنایا گیا ہوں

روز اول ہی خطا کار بنایا گیا ہوں
اور پھر اشرف مخلوق بتایا گیا ہوں


ٹوٹنے اور بکھرنے پہ ہے واویلا کیوں
دیکھیے کتنی بلندی سے گرایا گیا ہوں


اختیارات سے تقدیر سے کیا لینا ہے
وقت کی گرد میں تنکا سا اڑایا گیا ہوں


زندگی ایک ڈگر پر ہی کہاں چلتی ہے
کبھی دیوار کبھی دل سے لگایا گیا ہوں


دونوں ہاتھوں سے لٹاتے ہوئے یہ تو سوچیں
کتنی محنت سے محبت سے کمایا گیا ہوں


میں نہ یوسف ہوں نہ ہے کوئی خریدار مرا
جانے کیا سوچ کے بازار میں لایا گیا ہوں


امتحاں دینے تلک یاد جنہیں رکھا جائے
ان سوالات کی مانند بھلایا گیا ہوں


نوک خنجر سے سہی وقت کے ہاتھوں لیکن
گدگدی کر کے کئی بار ہنسایا گیا ہوں


اس زمانے کا ہوں میں ایک ہنسی کا مقروض
جس کی پاداش میں اک عمر رلایا گیا ہوں


مسئلہ یوں ہی نہیں پیش فشار خوں کا
خود سے الجھایا گیا اور لڑایا گیا ہوں


اجنبی لوگ زمیں زاد نہیں لگتے ہیں
اور سیارے پہ شاید میں بسایا گیا ہوں


کنفیوشس ہو کہ نانک ہو کہ بدھا گوتم
سو طریقوں سے سبق ایک پڑھایا گیا ہوں


لاکھ پردوں میں سہی میری حقیقت ملفوف
میں بہ ہر رنگ زمانے کو دکھایا گیا ہوں


مجھ کو ماحول موافق نہیں آیا جاذبؔ
پھول ہوں اور سر دشت کھلایا گیا ہوں