اپنے الفاظ و معانی سے نکل آیا ہے

اپنے الفاظ و معانی سے نکل آیا ہے
وہ کہانی کی روانی سے نکل آیا ہے


کھینچ لائی ہے ہمیں چاندنی شب میں خوشبو
سانپ بھی رات کی رانی سے نکل آیا ہے


خود کو روپوش کیا کتنے ہی کرداروں میں
پھر بھی فن کار کہانی سے نکل آیا ہے


جاگ اٹھی ہے تڑپ دور چلے جانے سے
راستہ نقل مکانی سے نکل آیا ہے


پھوٹ بہنے لگے ٹھوکر سے پھپھولے دل کے
درد احساس کے پانی سے نکل آیا ہے


تجربے باندھ کے گٹھڑی میں رکھے کاندھوں پر
اک بڑھاپا بھی جوانی سے نکل آیا ہے


حکمتیں فکر و تدبر میں رکھی ہیں جاذبؔ
فلسفہ شعلہ بیانی سے نکل آیا ہے