بیٹھا ہوں اپنی ذات کا نقشہ نکال کے
بیٹھا ہوں اپنی ذات کا نقشہ نکال کے اک بے زمین ہاری ہوں صحرا نکال کے ڈھونڈا بہت مگر کوئی رستہ نہیں ملا اس زندگی سے تیرا حوالہ نکال کے الماری سے ملے مجھے پہلے پہل کے خط بیٹھا ہوا ہوں آپ کا وعدہ نکال کے ویرانیوں پہ آنکھ چھما چھم برس پڑی لایا ہوں میں تو دشت سے دریا نکال کے آسانیاں ...