بیٹھا ہوں اپنی ذات کا نقشہ نکال کے

بیٹھا ہوں اپنی ذات کا نقشہ نکال کے
اک بے زمین ہاری ہوں صحرا نکال کے


ڈھونڈا بہت مگر کوئی رستہ نہیں ملا
اس زندگی سے تیرا حوالہ نکال کے


الماری سے ملے مجھے پہلے پہل کے خط
بیٹھا ہوا ہوں آپ کا وعدہ نکال کے


ویرانیوں پہ آنکھ چھما چھم برس پڑی
لایا ہوں میں تو دشت سے دریا نکال کے


آسانیاں ہی سوچتے رہتے ہیں یار لوگ
عقبیٰ نکال کر کبھی دنیا نکال کے


ہم رفتگاں سے ہٹ کے بھی دیکھیں تو شعر میں
موضوع کم ہی بچتے ہیں نوحہ نکال کے


ملنا کہاں تھا سہل در آگہی مجھے
آیا ہوں میں پہاڑ سے رستہ نکال کے


واعظ نہال آج خوشی سے ہے کس قدر
اک تازہ اختلاف کا نکتہ نکال کے


منعم کو اس نوالے کی لذت کا کیا پتا
مزدور جو کمائے پسینہ نکال کے


حالات کیا غریب کے بدلے کہ ہر کوئی
لے آیا ہے قریب کا رشتہ نکال کے


جاذبؔ کہاں خبر تھی کہ ہے باز تاک میں
ہم شاد تھے قفس سے پرندہ نکال کے