ہم شعلہ بدست اتنی محبت سے جلے ہیں
ہم شعلہ بدست اتنی محبت سے جلے ہیں
جو دیکھنے والے تھے وہ حسرت سے جلے ہیں
خوشبو سے جلے ہیں کبھی صورت سے جلے ہیں
بد خواہ حسد کرنے کی عادت سے جلے ہیں
جل جائے جہاں خون نہیں کھولتا ان کا
ہم برف زدہ لوگوں کی فطرت سے جلے ہیں
کب شعلگی لو دینے سے آئی ہے کبھی باز
یہ حسن نظر والے عنایت سے جلے ہیں
اک آگ کے دریا کو بتایا ہے چمن زار
ہم ڈوبنے والوں کی رعایت سے جلے ہیں
کردار پہ آنے ہی نہیں دی ہے کبھی آنچ
کچھ لوگ محبت میں مہارت سے جلے ہیں
اس آگ میں راحت کے بھی سامان ہیں جاذبؔ
سمجھائیں بھی کیسے کہ ضرورت سے جلے ہیں