رواج و رسم نہ گھر بار کے مسافر ہیں

رواج و رسم نہ گھر بار کے مسافر ہیں
ہم اور لوگ ہیں اس پار کے مسافر ہیں


سفر قدیم سے درپیش کون سا ہے ہمیں
نہ جانے کون سی دیوار کے مسافر ہیں


نہ منزلوں کا تعین نہ راستوں کی خبر
ہم ایسے لوگ تو بیکار کے مسافر ہیں


نہ سر میں ڈر ہے کہیں کا نہ خوف جور و ستم
عذاب راس ہیں آزار کے مسافر ہیں


ہیں فرش راہ بلائیں تو ہم قدم آسیب
کسی جہان پر اسرار کے مسافر ہیں


ملے اگر تو بھرے خوشبوئیں خیالوں میں
کہ دست یار طرح دار کے مسافر ہیں


بنائے رخت بنائے سفر توکل ہے
مدد نہ دست مددگار کے مسافر ہیں


شمار موضوع فطرت میں سر کھپاتے ہیں
سروں میں دوڑتے افکار کے مسافر ہیں


وہ دوستی ہو عداوت ہو کچھ بھی ہو طاہرؔ
ہر ایک چیز میں معیار کے مسافر ہیں