ریت سا دن ہے رات مٹھی بھر
ریت سا دن ہے رات مٹھی بھر
آدمی کی بساط مٹھی بھر
رب کی کوزہ گری کا افسوں ہے
ہم سبھی کی حیات مٹھی بھر
ایک مشت غبار ہے ہستی
اور یہ کائنات مٹھی بھر
حد سے بے حد خدا کی رحمت ہے
اور اپنی زکوٰۃ مٹھی بھر
سارے دن کی تھکن کے بدلے میں
ہاتھ آئی ہے رات مٹھی بھر
لوگ کہتے ہیں زندگی جس کو
خواہشوں کی برات مٹھی بھر
ہجر کے دن طویل کتنے ہیں
اور یہ وصل رات مٹھی بھر
تلخیاں بے شمار ہیں ارمانؔ
اور لطف نشاط مٹھی بھر