عشق پہلے تو گلابوں کی طرح ہوتا ہے

عشق پہلے تو گلابوں کی طرح ہوتا ہے
اور پھر بعد میں کانٹوں کی طرح ہوتا ہے


ساتھ رہتے ہوئے بھی ساتھ نہیں رہتا ہے
اپنا سایہ بھی تو غیروں کی طرح ہوتا ہے


کوشاں رہتے ہیں کہ ٹوٹے نہ کبھی اس کا یقین
اور یقیں کانچ کے کنچوں کی طرح ہوتا ہے


دل کی آواز سنی اور محبت کر لی
آدمی عشق میں بچوں کی طرح ہوتا ہے


جلوۂ یار کا منظر ہے وہ منظر کی جسے
دیکھنے والا بھی اندھوں کی طرح ہوتا ہے


اس لئے میں نے ترے غم کی حفاظت کی ہے
غم پرانا ہو تو پھولوں کی طرح ہوتا ہے


ایک ہی سین میں پستی سے بلندی کا سفر
زندگی میں کہاں فلموں کی طرح ہوتا ہے


میں نے دیکھا تو نہیں میرؔ کا دیوان مگر
جانتا ہوں تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے