قدرت کی عدالت میں کانٹوں کی شکایت ہے

قدرت کی عدالت میں کانٹوں کی شکایت ہے
ہر باغ میں پھولوں کی فطرت میں رعونت ہے


سمجھا دو فرشتوں کو کس کی مجھے حسرت ہے
ہوں جس کا تمنائی نام اس کا محبت ہے


اس درجہ محبت ہے اک دوجے سے دونوں کو
میں اس کی ضرورت ہوں وہ میری ضرورت ہے


یہ کس کی اطاعت میں دل میرا دکھا بیٹھے
تصویر میں جا بیٹھے یہ کیسی شرارت ہے


وہ زلف پریشاں بھی کیا خوب نظر آئی
لہرائے تو بادل سی بل کھائے قیامت ہے


اب مولیٰ محافظ ہے نوخیز سی کلیوں کا
پھولوں کی ریاست میں کانٹوں کی حکومت ہے


عالم میں جوانی کے مغرور تھا پہلے تو
کیوں چاند کو تاروں سے اب اتنی شکایت ہے


اقرار وفا کر کے سینہ سے لگایا جو
یہ ان کی محبت ہے یہ ان کی عنایت ہے


ہم ہی تو نہیں تنہا سب عشق کے مارے ہیں
ہر دل پہ چڑھی دیکھو الفت کی حرارت ہے


تفریح کو نکلے ہیں ہم شہر میں سج دھج کے
ان کو جو شکایت ہے اتنی سی شکایت ہے


اک تل کے اضافے نے برباد کیا ارمانؔ
بے دام پھنسے عاشق یہ حسن کی فطرت ہے