آنکھوں میں تیری دید کے منظر لیے ہوئے
آنکھوں میں تیری دید کے منظر لیے ہوئے
پھرتے ہیں سر پہ بوریا بستر لیے ہوئے
پہلی نظر نے آپ کی بسمل کیا ہمیں
ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے
کیسے کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑتی پھرے نشتر لیے ہوئے
اے آرزوئے دشت کہیں تو قیام کر
کیوں پھر رہی ہے خوابوں کا لشکر لیے ہوئے
کیا جانے کب کسی سے بچھڑنا پڑے یہاں
ہم جی رہے ہیں دل میں یہی ڈر لیے ہوئے
جن سے سنبھل نہ پاتا ہے چوڑی کا بوجھ تک
وہ پھر رہے ہے شہر میں ہنٹر لیے ہوئے
حالانکہ ابتدا ہے میرے ذوق عشق کی
دنیا کھڑی ہے ہاتھ میں پتھر لیے ہوئے
اک فریم میں جڑے ہوئے ہیں دونوں ایک ساتھ
میں سر جھکائے اور وہ خنجر لیے ہوئے
اب در بہ در یہاں سے وہاں گھومتے ہیں ہم
پلکوں پہ کتنے درد کے منظر لئے ہوئے