رستے روٹھ جاتے ہیں
اگر پامال راہوں پر قدم رکھنے کی عادت ختم ہو جائے
مشام جاں میں خوشبو کی بجائے درد در آئے
وصال آمادہ شہ راہوں پہ فرقت کا بسیرا ہو
اک ایسا وقت آ جائے
جو تیرا ہو نہ میرا ہو
محبت کی سنہری جھیل پر غم کی گھنیری رات چھائی ہو
کناروں پر فقط نم دیدہ تنہائی کی کائی ہو
چمکتے پانیوں پر تھرتھراتے عکس کھو جائیں
رو پہلی دھوپ میں سر سبز پگڈنڈی اچانک زرد پڑ جائے
سمندر کی نمیدہ ریت پر نقش قدم لہریں نگل جائیں
وہ آنکھیں جن میں ست رنگے سجیلے خواب رہتے ہیں
وہاں آسیب بس جائیں
جو دونوں سمت سے سایہ فگن پیڑوں تلے بھی چلچلاتی دھوپ پھیلی ہو
جہاں ہر روز جانا ہو
تو رستے روٹھ جاتے ہیں