رگوں میں رات سے یہ خون سا رواں ہے کیا
رگوں میں آج بھی یہ خون سا رواں ہے کیا
وہ درد عشق حقیقت میں جاوداں ہے کیا
پرند کس لیے کرتے ہیں آشیاں سے کوچ
انہیں بھی حاجت یک گوشۂ اماں ہے کیا
یہ ہم جو چھوتے ہیں ہر روز چاند تاروں کو
ہمارے پاؤں تلے کوئی آسماں ہے کیا
ہوا میں کھیل رہا ہے جو ابر کی صورت
کسی مکان سے اڑتا ہوا دھواں ہے کیا