رفیق و مونس و ہمدم کوئی ملا ہی نہیں

رفیق و مونس و ہمدم کوئی ملا ہی نہیں
وہ کیا جئے جسے جینے کا آسرا ہی نہیں


اسے حقیقت عظمیٰ سمجھ کے اترائے
وہ نقش زیست جو سچ پوچھئے بنا ہی نہیں


خدا کے واسطے کچھ روشنی گھٹا دیجے
نظر ہے خیرہ کچھ ایسی کہ سوجھتا ہی نہیں


حواس و ہوش و خرد سب وہاں سلامت ہیں
جہاں نگاہ کا جادو کبھی چلا ہی نہیں


وہ اپنی ذات سے باہر نکل کے کیا جائے
وہ دیدہ ور جو کسی سمت دیکھتا ہی نہیں


تری نگاہ کے صدقہ تری نظر کے نثار
گرا جو تیری نظر سے وہ پھر اٹھا ہی نہیں


اس ایک بات کے قربان جائیے کہ جسے
تمام عمر کہا اور کچھ کہا ہی نہیں


فسانہ دل صد چاک کا مآل نہ پوچھ
سنا تو اس نے مگر جیسے کچھ سنا ہی نہیں


دکھاؤں بھی تو کسے درد و رنج کی تصویر
مرے جہاں میں کوئی درد آشنا ہی نہیں


مرے رفیق مجھے درس مصلحت کیوں دیں
دلوں کی بات ہے یاں مصلحت روا ہی نہیں


زمانہ اس سے خوشی کیوں طلب کرے قادرؔ
جسے غموں کے سوا اور کچھ ملا ہی نہیں