فریب در فریب
دن کے صحرا سے جب بنی جاں پر ایک مبہم سا آسرا پا کر ہم چلے آئے اس طرف اور اب رات کے اس اتھاہ دریا میں خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں!
دن کے صحرا سے جب بنی جاں پر ایک مبہم سا آسرا پا کر ہم چلے آئے اس طرف اور اب رات کے اس اتھاہ دریا میں خواب کی کشتیوں کو کھیتے ہیں!
پھر تری تتلی نما صورت مجھے یاد آ گئی مجھ کو وہ لمحہ ابھی بھولا نہیں ایک کونے میں کئی لوگوں کے ساتھ گفتگو میں منہمک کھویا ہوا میری آنکھوں نے کبھی تجھ سا کوئی دیکھا نہ تھا میں تجھے تکنے لگا دیر تک تکتا رہا آنکھ سے کانوں سے ہونٹوں سے تجھے تکتا رہا کیا عجب دیوانگی تھی رشک آیا بخت پہ ...
رات کا یہ سمندر تمہارے لیے تم سمندر کی خاطر بنے ہو دلوں میں کبھی خشکیوں کی سحر کا تصور نہ آئے اسی واسطے تم کو بے بادباں کشتیاں دی گئی ہیں سفر رات کے اس سمندر کی گہرائیوں کا سفر بیکراں ہے اکیلے ہو تم اور اکیلے رہوگے مگر آسماں کی جگہ آسماں اور زمیں کی جگہ یہ زمیں تم سے قائم ہے دائم ...
جو کچے رستوں سے پکی سڑکوں کا رخ کیا تھا کھڑاؤں اپنی اتار دیتے بدن کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے تمہاری سیراب پنڈلیوں پر نشان جتنے ہیں کہہ رہے ہیں کہ تم نے راتوں کو رات سمجھا ہر ایک موسم میں اس کی نسبت سے پھل اگائے بدن ضرورت غذا ہمیشہ تمہیں ملی ہے نہ جانے افتاد کیا پڑی ہے جو کچے رستوں سے ...
دروازۂ جاں سے ہو کر چپکے سے ادھر آ جاؤ اس برف بھری بوری کو پیچھے کی طرف سرکاؤ ہر گھاؤ پہ بوسے چھڑکو ہر زخم کو تم سہلاؤ میں تاروں کی اس شب کو تقسیم کروں یوں سب کو جاگیر ہو جیسے میری یہ عرض نہ تم ٹھکراؤ چپکے سے ادھر آ جاؤ
تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں میرے جسم کے سارے علاقے جل تھل ہو جائیں ہونٹ ندی سیلاب کا مجھ پہ دروازہ کھولے ہم کو میسر ایسے بھی اک دو پل ہو جائیں دشمن دھند ہے کب سے میری آنکھوں کے درپئے ہجر کی لمبی کالی راتیں کاجل ہو جائیں عمر کا لمبا حصہ کر کے دانائی کے نام ہم بھی اب یہ ...
بے تاب ہیں اور عشق کا دعویٰ نہیں ہم کو آوارہ ہیں اور دشت کا سودا نہیں ہم کو غیروں کی محبت پہ یقیں آنے لگا ہے یاروں سے اگرچہ کوئی شکوہ نہیں ہم کو نیرنگیئ دل ہے کہ تغافل کا کرشمہ کیا بات ہے جو تیری تمنا نہیں ہم کو یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم ...
مہیب لمبے گھنے پیڑوں کی ہری شاخیں کبھی کبھی کوئی اشلوک گنگناتی تھیں کبھی کبھی کسی پتے کا دل دھڑکتا تھا کبھی کبھی کوئی کونپل درود پڑھتی تھی کبھی کبھی کوئی جگنو الکھ جگاتا تھا کبھی کبھی کوئی طائر ہوا سے لڑتا تھا کبھی کبھی کوئی پرچھائیں چیخ پڑتی تھی اور اس کے بعد مری آنکھ کھل گئی ...
ہوا کا تعاقب کبھی چاند کی چاندنی کو پکڑنے کی خواہش کبھی صبح کے ہونٹ چھونے کی حسرت کبھی رات کی زلف کو گوندھنے کی تمنا کبھی جسم کے قہر کی مدح خوانی کبھی روح کی بے کسی کی کہانی کبھی جاگنے کی ہوس کو جگانا کبھی نیند کے بند دروازے کو کھٹکھٹانا کبھی صرف آنکھیں ہی آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں ...
رات کا بیتنا دن کا آنا کون سی ایسی نئی بات ہے جس پر ہم سب اتنے افسردہ ہیں کھڑکی کھولو اس طرف سامنے دیکھو وہ کھڑی ہے چھت پر