قومی زبان

زندہ رہنے کا یہ احساس

ریت مٹھی میں کبھی ٹھہری ہے پیاس سے اس کو علاقہ کیا ہے عمر کا کتنا بڑا حصہ گنوا بیٹھا میں جانتے بوجھتے کردار ڈرامے کا بنا اور اس رول کو سب کہتے ہیں ہوشیاری سے نبھایا میں نے ہنسنے کے جتنے مقام آئے ہنسا بس مجھے رونے کی ساعت پہ خجل ہونا پڑا جانے کیوں رونے کے ہر لمحے کو ٹال دیتا ہوں کسی ...

مزید پڑھیے

نیا امرت

دواؤں کی المایوں سے سجی اک دکاں میں مریضوں کے انبوہ میں مضمحل سا اک انساں کھڑا ہے جو اک نیلی کبڑی سی شیشی کے سینے پہ لکھے ہوئے ایک اک حرف کو غور سے پڑھ رہا ہے مگر اس پہ تو ''زہر'' لکھا ہوا ہے اس انسان کو کیا مرض ہے یہ کیسی دوا ہے؟

مزید پڑھیے

ایک نظم

مائل بہ کرم ہیں راتیں آنکھوں سے کہو اب مانگیں خوابوں کے سوا جو چاہیں

مزید پڑھیے

آرزو

سوتے سوتے چونک اٹھی جب پلکوں کی جھنکار آبادی پر ویرانے کا ہونے لگا گمان وحشت نے پر کھول دیے اور دھندلے ہوئے نشان ہر لمحے کی آہٹ بن گئی سانپوں کی پھنکار ایسے وقت میں دل کو ہمیشہ سوجھا ایک اپائے کاش کوئی بے خواب دریچہ چپکے سے کھل جائے

مزید پڑھیے

کھیل کا نتیجہ

کیوں ملال ہے اتنا ہار جیت میں تم کو فرق کیوں نظر آیا کھیل کا نتیجہ تو کھیلنے کی لذت ہے جو تمہارے حصے میں اور لوگوں کی نسبت کچھ زیادہ آئی ہے پھر ملال کیسا ہے

مزید پڑھیے

زوال کی حد

بوتل کے اندر کا جن نکلے تو اس سے پوچھیں جینے کا کیا ڈھنگ کریں کن سپنوں سے جنگ کریں کھولو سوڈا لاؤ گلاس دو آنے کے سیخ کباب سگریٹ بھی لیتے آنا پارک میں کیا وہ آئی تھی آج بھی کیا شرمائی تھی کیسے کپڑے پہنے تھی کیا انداز تھا جوڑے کا تم نے اس سے پوچھا تھا رات جو تم نے سوچا تھا فیضؔ کی ...

مزید پڑھیے

واپسی

یہاں کیا ہے برہنہ تیرگی ہے خلا ہے آہٹیں ہیں تشنگی ہے یہاں جس کے لیے آئے تھے وہ شے کسی قیمت پہ بھی ملتی نہیں ہے جو اپنے ساتھ ہم لائے تھے وہ بھی یہیں کھو جائے گا گر کی نہ جلدی چلو جلدی چلو اپنے مکاں کے کواڑوں کی جبیں پر ثبت ہوگی کوئی دستک ابھی بیتے دنوں کی

مزید پڑھیے

ایک کالی نظم

میں کورے کاغذ پر لکھوں پھر ایک کالی نظم الکھ جگاتے سناٹوں سے پھر سے سجاؤں بزم گدر امرودوں کی خوشبو پاگل کر جائے میری ان خالی آنکھوں کو جل تھل کر جائے دور درندوں کی آوازیں خود سے لڑتی ہوں میرے اس کے بیچ میں لمبی راتیں پڑتی ہوں شکنوں سے عاری اک بستر مجھ کو تکتا ہو جسم مرا جب آدھا ...

مزید پڑھیے

اعتراف

وہ دور بلند پہاڑوں پر ملبوس فرشتوں کا پہنے خوابوں کے مہیب درختوں کی شاخوں پر جھولا ڈالے ہوئے پرچھائیاں چھوٹی بڑی لاکھوں مصروف ہیں زخم شماری میں میں ایک نحیف سے نقطے کی بانہوں میں اسیر تڑپتا ہوں ہموار زمیں پر چلنے کی خواہش کے عذاب میں جلتا ہوں

مزید پڑھیے

موت

ابھی نہیں ابھی زنجیر خواب برہم ہے ابھی نہیں ابھی دامن کے چاک کا غم ہے ابھی نہیں ابھی در باز ہے امیدوں کا ابھی نہیں ابھی سینے کا داغ جلتا ہے ابھی نہیں ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے ابھی نہیں ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے

مزید پڑھیے
صفحہ 928 سے 6203