قومی زبان

بیدار کی نگاہ میں کل اور آج کیا

بیدار کی نگاہ میں کل اور آج کیا لمحوں سے بے نیاز کا کوئی علاج کیا قدریں بھٹک رہی ہیں ابھی کھنڈرات میں ہم عہد ارتقا سے وصولیں خراج کیا ہر ذہن بے لگام ہے ہر فکر بے قیاس آزاد نسل و قوم کے رسم و رواج کیا کس کو وہاں پہ کیجیئے تفریق آشنا جس کا جہاں لگاؤ نہ ہو احتجاج کیا زندہ ہو جب ...

مزید پڑھیے

کنار چشم سے دیکھا ہے خوف کھاتے ہوئے

کنار چشم سے دیکھا ہے خوف کھاتے ہوئے لرزتی ڈولتی دنیا کو ڈوب جاتے ہوئے کسی نے ہم سے نہ پوچھا ہمارے خواب کا رنگ یہ رنگ رنگ کے پرچم ہمیں تھماتے ہوئے ہے شور خانۂ دنیا گلی کے نکڑ پر میں کان بند ہی رکھتا ہوں آتے جاتے ہوئے کوئی تو آ کے خبر لے کہ بجھتا جاتا ہے فقیر شب کے اندھیرے میں دن ...

مزید پڑھیے

مرے روگ کا نہ ملال کر مرے چارہ گر

مرے روگ کا نہ ملال کر مرے چارہ گر میں بڑا ہوا اسے پال کر مرے چارہ گر سبھی درد چن مرے جسم سے کسی اسم سے مرا انگ انگ بحال کر مرے چارہ گر مجھے سی دے سوزن درد رشتۂ زرد سے مجھے ضبط غم سے بحال کر مرے چارہ گر مجھے چیر نشتر عشق سوز سرشک سے مرا اندمال محال کر مرے چارہ گر یہ بدن کے عارضی ...

مزید پڑھیے

مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے

مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے اسے کہو کہ تعلق کو پھر بحال کرے نگاہ یار نہ ہو تو نکھر نہیں پاتا کوئی جمال کی جتنی بھی دیکھ بھال کرے ملے تو اتنی رعایت عطا کرے مجھ کو مرے جواب کو سن کر کوئی سوال کرے کلام کر کہ مرے لفظ کو سہولت ہو ترا سکوت مری گفتگو محال کرے بلندیوں پہ کہاں تک ...

مزید پڑھیے

جیسے دیکھا ہے دکھایا بھی نہیں جا سکتا

جیسے دیکھا ہے دکھایا بھی نہیں جا سکتا خواب کا حال سنایا بھی نہیں جا سکتا پھینکی جاتی بھی نہیں راہ میں یادیں اس کی اور یہ بوجھ اٹھایا بھی نہیں جا سکتا عکس کو آنکھ سے تھاما ہے سر آب رواں چاند پانی میں بہایا بھی نہیں جا سکتا دو کنارے بھی یہ ہوتے تو ملا دیتا میں دل کو دنیا سے ملایا ...

مزید پڑھیے

یادوں کی زنجیریں

اپنے آپ سے لڑتے لڑتے ایک زمانہ بیت گیا اب میں اپنے جسم کے بکھرے ٹکڑوں کے انبار پہ بیٹھا سوچ رہا ہوں میرا ان سے کیا رشتہ ہے ان کا آپس میں کیا رشتہ ہے کون ہوں میں اور کس تلوار سے میں نے اپنے جسم کے ٹکڑے کاٹے ہیں اب میں کیا ہوں اور اب مجھ کو کیا کرنا ہے میں نے کیا تعمیر کیا تھا چھوٹی ...

مزید پڑھیے

اگر مجھے یہ گمان بھی ہو

اگر مجھے یہ گمان بھی ہو کہ خواب میں میں نہ دیکھ پاؤں گا تیرا چہرہ گداز بانہیں اداس آنکھیں مرے لبوں کو تلاش کرتے ہوئے ترے لب قسم ہے مجھ کو گزرتی ندی کے پانیوں کی میں اپنی نیندیں جلا کے رکھ دوں اگر مجھے یہ یقین بھی ہو کہ سبز پتے ہوا کی آہٹ نہ سن سکیں گے گلاب موسم برستی بارش نہ سہہ سکے ...

مزید پڑھیے

تنہائی کے بعد

جھانکتا ہے تری آنکھوں سے زمانوں کا خلا تیرے ہونٹوں پہ مسلط ہے بڑی دیر کی پیاس تیرے سینے میں رہا شور بہاراں کا خروش اب تو سانسوں میں نہ گرمی ہے نہ آواز نہ باس تو نے اک عمر سے بازو بھی نہیں پھیلائے پھر بھی بانہوں کو ہے صدیوں کی تھکن کا احساس تیرے چہرے پہ سکوں کھیل رہا ہے لیکن تیرے ...

مزید پڑھیے

سوتا جاگتا سایہ

تو چلی جا کہ مجھے تیری ضرورت بھی نہیں میں شب و روز کی مٹی سے دوبارہ بھی جنم لے لوں گا میں جو زندوں میں ہوں زندوں میں نہیں میں پرندوں میں درندوں میں نہیں فقط انسانوں میں موجود ہے سایہ میرا مدتیں بیت گئی ہیں مگر انجام نہ آیا میرا میں سپاہی تو نہیں پھر بھی لڑی ہیں کئی جنگیں میں ...

مزید پڑھیے

کرسمس کا درخت

میں بھی ہوں گویا کرسمس کا درخت میرا رشتہ بھی زمیں سے آسماں سے اور ہوا سے کٹ چکا باغ چھوٹا کھیتیاں چھوٹیں میں گھر کے مرکزی کمرے میں آ کر ڈٹ چکا میرے بچوں نے سجایا ہے مجھے روشنی کے ننھے ننھے بلب ٹانکے ہیں مری بانہوں کے ساتھ میری شاخوں میں ہیں تحفے مختلف رنگوں کے کاغذ اور سنہرے ٹیپ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 920 سے 6203