کنار چشم سے دیکھا ہے خوف کھاتے ہوئے

کنار چشم سے دیکھا ہے خوف کھاتے ہوئے
لرزتی ڈولتی دنیا کو ڈوب جاتے ہوئے


کسی نے ہم سے نہ پوچھا ہمارے خواب کا رنگ
یہ رنگ رنگ کے پرچم ہمیں تھماتے ہوئے


ہے شور خانۂ دنیا گلی کے نکڑ پر
میں کان بند ہی رکھتا ہوں آتے جاتے ہوئے


کوئی تو آ کے خبر لے کہ بجھتا جاتا ہے
فقیر شب کے اندھیرے میں دن ملاتے ہوئے


کبھی کبھار سڑک پر میں خود سے ملتا ہوں
کسی کو چھوڑ کے آتے کسی کو لاتے ہوئے