اگر مجھے یہ گمان بھی ہو

اگر مجھے یہ گمان بھی ہو
کہ خواب میں میں نہ دیکھ پاؤں گا
تیرا چہرہ گداز بانہیں اداس آنکھیں
مرے لبوں کو تلاش کرتے ہوئے ترے لب
قسم ہے مجھ کو گزرتی ندی کے پانیوں کی
میں اپنی نیندیں جلا کے رکھ دوں
اگر مجھے یہ یقین بھی ہو
کہ سبز پتے ہوا کی آہٹ نہ سن سکیں گے
گلاب موسم برستی بارش نہ سہہ سکے گا
چمکتی شاخوں پہ اک شگوفہ نہ رہ سکے گا
تو پھر بھی میں تیرا نام لے کر
ترستی آنکھوں کو بند کر لوں
کہ نیند آئے تو میں ترے خواب دیکھ پاؤں


یہ خواہشیں ہیں کہ سنگ ریزے
جو آسمانوں سے میرے دل پر برس رہے ہیں
یہ دھوپ ہے یا اذیتوں کا سراب دوزخ
یہ لوگ ہیں یا خلا کی وسعت میں دور ہوتے ہوئے ستارے
کہاں گیا نیند کا پرندہ
پروں سے لوری سنانے والا
وہ تیرے منظر دکھانے والا