قومی زبان

زوال کی آخری چیخ

چھٹی بار جب میں نے دروازہ کھولا تو اک چیخ میرے بدن کے مساموں سے چمٹی بدن کے اندھیروں میں اتری مرا جسم اس چیخ کے تند پنجوں سے جھلسی ہوئی بے کراں چیخ تھا میں لرزتا ہوا کہنہ گنبد سے نکلا اور چیخ میرے بدن سے سیاہ گھاس کی طرح نکلی بدن کے کروڑوں مساموں کے منہ پر سیاہ چیخ کا سرخ جنگل اگا ...

مزید پڑھیے

جسم کے اندر جسم کے باہر

میں نے زمیں کی تپتی رگوں پہ ہاتھ دھرے ہیں میں نے زمیں کی تپتی رگوں سے تپتے لہو کو ابلتے دیکھا ہے ان رستوں پہ ان گلیوں پہ پتھر جیسی سخت ہوا کے سرخ دھماکے دیکھے ہیں رات کی متورم گھڑیوں میں زرد مکانوں کے صحنوں میں لہو کو گرتے دیکھا ہے قطرہ قطرہ قطرہ قطرہ قطرہ بنتے بنتے ایک سمندر اک ...

مزید پڑھیے

کڑوے تلخ کسیلے ذائقے

ہم شوریدہ کڑوے تلخ کسیلے ذائقے رات کی پر شہوت آنکھوں سے ٹپکے تازہ قطرے شام کے کالے سیاہ ماتھے کی ننگی مخروطی خارش دوپہروں کے جلتے گوشت کی تیز بساند رات کی کالی ران سے بہتا اندھا لاوا خلیج کی گہرائی سے باہر آتا قدم قدم پر خوف تباہی دہشت پیدا کرتا بکھر رہا ہے راتوں کی سیال ملامت ...

مزید پڑھیے

وہ ساحل شب پہ سو گئی تھی

نیلے سایوں کی رات تھی وہ وہ ساحل شب پہ سو گئی تھی وہ نیلے سائے ہوا کے چہرے پہ اور بدن پہ اور اس کی آنکھوں میں سو رہے تھے اور اس کے ہونٹوں پہ سرخ خوشبو کی دھوپ اس شب چمک رہی تھی وہ ساحل شب وہ نیلے پانی وہ آسمانوں سے سرخ پتوں کی تیز بارش وہ تیز بارش بدن پہ اس کے گلاب موسم کے ان دنوں ...

مزید پڑھیے

اس روز تم کہاں تھے

جس روز دھوپ نکلی اور لوگ اپنے اپنے ٹھنڈے گھروں سے باہر ہاتھوں میں ڈالے سورج کی سمت نکلے اس روز تم کہاں تھے جس روز دھوپ نکلی اور پھول بھی کھلے تھے تھے سبز باغ روشن اشجار خوش ہوئے تھے پتوں کی سبز خوشبو جب سب گھروں میں آئی اس روز تم کہاں تھے جس روز آسماں پر منظر چمک رہے تھے سورج کی ...

مزید پڑھیے

کسی بھی در کی سوالی نہیں رہی ہوگی

کسی بھی در کی سوالی نہیں رہی ہوگی جھکی جو عشق کے در پر جبیں رہی ہوگی وگرنہ ترک وفا سہل اس قدر تھا کہاں کمی مجھی میں یقیناً کہیں رہی ہوگی جو گور عقل میں کی دفن آرزو تم نے تمہارے دل میں کبھی جاگزیں رہی ہوگی وہ جن کے سر سے اٹھا آسمان کا سایہ کب ان کے پاؤں کے نیچے زمیں رہی ہوگی ابھی ...

مزید پڑھیے

آنکھوں میں لے کے یاس مجھے دیکھنے تو دے

آنکھوں میں لے کے یاس مجھے دیکھنے تو دے کون آ رہا ہے پاس مجھے دیکھنے تو دے دیکھے گا کون خاک میں جوہر چھپے ہوئے اے شہر نا شناس مجھے دیکھنے تو دے یہ کون محو رقص ہے یوں آبلوں کے ساتھ دشت آیا کس کو راس مجھے دیکھنے تو دے لب کھولتا نہیں نہ سہی آنکھ تو ملا تو خوش ہے یا اداس مجھے دیکھنے ...

مزید پڑھیے

یہ چیخیں یہ آہ و بکا کس لیے ہے

یہ چیخیں یہ آہ و بکا کس لیے ہے مرے شہر کی یہ فضا کس لیے ہے بتا زندہ درگور ہے آدمی کیوں بتا آسماں پر خدا کس لیے ہے ہیں مسلے ہوئے شاخ در شاخ گل کیوں چمن در چمن سانحہ کس لیے ہے اکیلا دیا رہ گزر کا بجھا کر پشیماں بہت اب ہوا کس لیے ہے جو تم سامنے آئے تو میں نے جانا کہ منظر نے بدلی قبا ...

مزید پڑھیے

والد صاحب کے نام

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پہ رکھتا ہے یہی ہے وجہ مجھے چومتے جھجھکتا ہے وہ آشنا مرے ہر کرب سے رہے ہر دم جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط مری ہاں سے یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں ...

مزید پڑھیے

خواہشیں اور خون

میں نے آشاؤں کی آنکھیں چہرے ہونٹ اور نیلے بازو نوچ لیے ہیں ان کے گرم لہو سے میں نے اپنے ہاتھ بھگو ڈالے ہیں دوپہروں کی تپتی دھوپ میں خواہشیں اپنے جسم اٹھا کر چوبی کھڑکی کے شیشوں سے اکثر جھانکتی رہتی ہیں آنکھیں ہونٹ اور زخمی بازو جانے کیا کچھ مجھ سے کہتے رہتے ہیں جانے کیا کچھ ان سے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 611 سے 6203