قومی زبان

جھوٹ کی پوشاک پر پیوند کاری کب تلک

جھوٹ کی پوشاک پر پیوند کاری کب تلک ہم سے آخر یہ بتاؤ ہوشیاری کب تلک صاحب کشکول کچھ عزت کی روزی کر تلاش یوں اکٹھا تو کرے گا ریز گاری کب تلک راز میں نے تم کو اپنا دے دیا کچھ سوچ کر دیکھنا ہے رکھ سکو گے رازداری کب تلک عجز کی تاکید کرتے ہو بہت تقریر میں یہ بتاؤ ظالموں سے انکساری کب ...

مزید پڑھیے

اس کی رحمت کر رہی ہے اس کے روزے کا طواف

اس کی رحمت کر رہی ہے اس کے روزے کا طواف یہ جو بچہ کر رہا ہے سوکھے ٹکڑے کا طواف جانے کس مصرع کی اب تقدیر لکھی جائے گی کتنے مصرعے کر رہے ہیں ایک مصرعے کا طواف وقت آخر بوڑھی ماں تصویر لے کر ہاتھ میں دیر تک کرتی رہی بیٹے کے چہرے کا طواف کوئی بھی یوں ہی نہیں پھرتا کسی کے ارد گرد سب کیا ...

مزید پڑھیے

ہمارے شہر میں گھر اس لیے سنسان رہتے ہیں

ہمارے شہر میں گھر اس لیے سنسان رہتے ہیں کہ گھر گھر خوف سے سہمے ہوئے انسان رہتے ہیں اگر تم عشق کی مسجد میں جانا ٹھان ہی بیٹھے تو بر خوردار سیکھو اس کے کیا ارکان رہتے ہیں مجھے مالک مرے بچوں کے ہر غم سے بچا لینا لب دل پر وہی بن کر مرے مسکان رہتے ہیں مجھے کوئی دکھا کر خواب میں میرا ...

مزید پڑھیے

ندامت ہی ندامت

رات کے معدے میں کاری زہر ہے جلتا ہے جس سے تن بدن میرا میں کب سے چیختا ہوں درد سے چلاتا پھرتا ہوں تشدد خوف دہشت بربریت اور مغلظ رات کی رانوں میں شہوت ایک کالا پھول بنتی ہے شہوت جاگتی ہے گھورتی ہے سرخ آنکھوں سے وہ چہرے نوچتی کھاتی ہے اپنے تند جبڑوں سے یہ کیسا زہر ہے جو پھیلتا جاتا ہے ...

مزید پڑھیے

ایک لمبی کافر لڑکی

وادی کی سب سے لمبی لڑکی کے جسم کے سب مساموں سے ریشم سے زیادہ ملائم اور نرم خموشی میں گھنٹیوں کی آوازیں آ رہی تھیں برکھا کی اس نم زدہ رات میں جب اس کے جسم پہ قوس قزح چمکی تو گھنٹیاں تیز تیز بجنے لگیں مرے کانوں میں آہٹیں آ رہی تھیں دھند سے بھی نرم اور ملائم بادلوں کی دبے پاؤں ...

مزید پڑھیے

پچھلے جنم کی ایک نظم

مجھے لگتا ہے زمین کے کسی گمنام منطقے میں ہم کبھی ساتھ ساتھ رہتے تھے مجھے اب تمہارا نام یاد نہیں تمہاری شکل بھی یاد نہیں مگر یہ لگتا ہے کہ شاید کئی صدیاں پہلے کسی پچھلے جنم کی سیڑھیوں پر ہم ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے وہ سیڑھیاں کہاں تھیں اور پچھلا جنم کہاں ہوا تھا مجھے تو یاد نہیں شاید ...

مزید پڑھیے

اس عہد کی بے حس ساعتوں کے نام

یہاں اب ایک تارہ زرد تارہ بھی نہیں باقی یہاں اب آسماں کے چیتھڑوں کی پھڑپھڑاہٹ بھی نہیں باقی یہاں پر سارے سورج تارے سورج تیرتے افلاک سے گر کر کسی پاتال میں گم ہیں یہاں اب سارے سیاروں کی گردش رک گئی ہے یہاں اب روشنی ہے اور نہ آوازوں کی لرزش ہے نہ جسموں میں ہی حرکت ہے یہاں پر اب ...

مزید پڑھیے

زوال کی آخری ہچکیاں

زوال کے آسمانوں میں لڑکھڑاتے اندھیرے خلاؤں کی دنیاؤں میں معلق ہوتے اندھیرے شہروں کے برجوں کی گمنام فصیلوں پر گرتے تشدد سے آباد انسانی بستیوں کے چہروں سے لپٹتے اور انسانی وجود کی دھجیاں دیکھ کر چیختے روتے کتنے ہزار سال بیت گئے ہیں کتنے ہزار سالوں سے زوال کی چیخوں کو سنتے ...

مزید پڑھیے

اے کے شیخ کے پیٹ کا کتا

رات بھر کتا اس کے پیٹ میں بھونک رہا تھا کیسی کیسی آوازیں تھیں بھوں بھوں بھوں بھوں ووں ووں ووں ووں سارا کمرہ اس کی پاگل آوازوں سے ووں ووں کرتا ہانپ رہا تھا گز بھر لمبی سرخ زباں بھی اس کے حلق سے نکل رہی تھی رالیں منہ سے ٹپک رہی تھیں ہلتے کان اور ہلتی دم سے کتا بھوں بھوں بھوں بھوں ...

مزید پڑھیے

ایک رات سفید گلابوں والے تالاب کے پاس

وہ ایک شب تھی سفید گلابوں والے تالاب کے بالکل نزدیک بادلوں کی پہلی آہٹ پر اس نے رکھ دیے ہونٹ ہونٹوں پر موسیقی کی تتلی گیت گانے لگی اس کے سانسوں کے آس پاس اس کی خوشبوؤں کے گھنگھرو بج رہے تھے اس شب ہوا کی سفید گلابی چھتوں پر وہ امڈ رہی تھی ایک تیز سمندری لہر کی طرح وہ جسم پر نقش ہو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 610 سے 6203