قومی زبان

تو ہمارے در سے جب بھی در بدر ہو جائے گی

تو ہمارے در سے جب بھی در بدر ہو جائے گی ساری دنیا کو ترے غم کی خبر ہو جائے گی انٹری جب بھی مری ہوگی تمہاری فلم میں بے اثر جو ہے کہانی با اثر ہو جائے گی جس کی خاطر گھر بنانے میں لگے ہو رات دن ایک دن یہ زندگی بھی در بدر ہو جائے گی آج تم سے مل رہا ہوں مدتوں کے بعد میں دیکھنا یہ رات ...

مزید پڑھیے

شفق گوں سبزہ

بڑی تکلیف تھی تحریر کو منزل پہ لانے میں تناؤ کا عجب اک جال سا پھیلا تھا چہرے پر کھنچے تھے ابروؤں میں سیدھے خط پیشانی پر آڑی لکیریں تھیں خمیدہ ہوتے گاہے لب کبھی مژگاں الجھ پڑتی تھیں باہم گرا کر پردۂ چشم اپنی آنکھوں پر غرق ہو جاتی سوچوں میں کہ افسانے میں دیوانے کا کیا انجام ...

مزید پڑھیے

ہزار شعر

شام تجھ پر ہزار شعر کہوں دل کو پھر بھی قرار آتا نہیں یہ ترا حسن یہ حلیمی تری تیری خاموشیاں یہ معنی خیز دن سمیٹے تو اپنے آنچل میں کیسے پل پل بکھیر دیتی ہے رنگ اور اندھیرے میں ڈوب جانے کو تیرا کچھ ہی گھڑی کا نرم وجود خوشبوئیں گھولتا فضاؤں میں دوش پر یوں اڑے ہواؤں کے جیسے تجھ کو ...

مزید پڑھیے

شام کا سحر

ابھی پرچھائیاں اونچے درختوں کی جدا لگتی ہیں رنگ آسماں سے ذرا پہلے گیا ہے اک پرندہ باغ کی جانب ادھر سے آنے والے ایک طیارے کی رنگیں بتیاں روشن نہیں اتنی وہ نکلی ہیں سبھی چمگادڑیں اپنے ٹھکانوں سے بڑا مبہم سا آیا ہے نظر زہرا فلک کے بیچ ٹی کوزی کے نیچے ہے گرم اب بھی بچا پانی کسی نے مجھ ...

مزید پڑھیے

چپکے چپکے رویا جائے

شام بجھی سی پنچھی چپ سینے کے اندر سناٹا اور روح میں نغمے غم آگیں دل کے سب زخموں کو اشکوں سے دھویا جائے کچھ لمحوں کو چپکے چپکے رویا جائے

مزید پڑھیے

پتوں کے سائے

شام کے ڈھلتے اترنے کے لئے کوشاں ہوا کرتی ہے جب جب مخملیں شب باغ کے اطراف پھیلے سب گھروں کی بتیاں جلتی ہیں اک کے بعد اک اک ایسے میں پتوں کے سائے کھڑکیوں کے لمبے شیشوں پر سمیٹے اپنا سارا حسن مجھ کو دیکھ کر گویا خوشی سے مسکراتے ہیں جہان دل سجاتے ہیں

مزید پڑھیے

برسات کی خشک شام

سنہرے سبز پتے سرمئی نیلا سا نارنجی بہ مائل سرخ رنگ آسماں خوشبو ہوا میں بھیگی سوندھی سی ابھی سورج ڈھلا ہی ہے خنک کمرے کی ساری کھڑکیوں کو بند کر کے جھانکنا شیشوں کے اندر سے خوش آگیں مشغلہ ہے

مزید پڑھیے

ضروری بات

نیلی نیلی شام کی خاموشیوں کے بیچ کیا سرگوشیاں سی کرتے ہیں شاخوں سے یہ پتے جھکا ہے گل کلی کے رخ پہ ساری خوشبوئیں لے کر بکھیرے زلف سورج کی طرف چل دی ہے اک بدلی ہوا اٹھکھیلیاں کرتی ہے رک رک کر درختوں سے زمیں کو آسماں نے لے لیا اپنی پناہوں میں تم آ جاتے اگر گھر آج جلدی مجھ کو بھی تم سے ...

مزید پڑھیے

شام‌ تنہا

شام تنہا یوں ہی چپ چاپ اندھیرے لے کر گھر کے اندر ہی چلی آئی ہے بتیاں گل کئے ہم بیٹھے رہے شام کو اور کچھ اداس کریں رنج اور غم کو پاس پاس کریں

مزید پڑھیے

آبائی گھر

ماتمی شام اتر آئی ہے پھر بام تلک گھر کی تنہائی کو بہلائے کوئی کیسے بھلا اپنے خوابوں کے تعاقب میں گئے اس کے مکیں منتظر ہیں یہ نگاہیں کہ ہیں بجھتے سے دئے راہ تکنے کے لئے کوئی بچے گا کب تک پھر یہ دیواریں بھی ڈھہ جائیں گی

مزید پڑھیے
صفحہ 574 سے 6203