قومی زبان

سر کاکل کو نہ او شوخ طرحدار تراش

سر کاکل کو نہ او شوخ طرحدار تراش کاٹ کھائے گا یہ اڑ کر نہ سر مار تراش اب تو سر ہوتے ہیں دس بیس کے ہر روز قلم خوب یہ تو نے نکالی ہے جفا کار تراش خط تو یہ میں نے ہی لکھا تھا خطا‌ وار ہوں میں ہاتھ قاصد کے لئے تو نے ستم گار تراش ماہ نو چوم ہی لے اس کو فلک سے گر کر پھینک دیوے جو وہ ناخن ...

مزید پڑھیے

عید ہو جائے ابھی طالب دیداروں کو

عید ہو جائے ابھی طالب دیداروں کو کھول دو زلف سے گر چاند سے رخساروں کو لے کے دل چین سے جا بیٹھے وہ گھر میں چھپ کے اب تو آنکھیں بھی ترسنے لگیں نظاروں کو پھل یہ قاتل کو دیا میری گراں جانی نے توڑ کر ڈھیر کیا سیکڑوں تلواروں کو عین الطاف ہے مذہب میں حسینوں کے ستم بدشگونی ہے انہیں ...

مزید پڑھیے

دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے

دل پریشاں ہی رہا دیر تلک گو بیٹھے اپنی زلفوں کو بنایا ہی کئے وہ بیٹھے اپنی صورت پہ کہیں آپ نہ عاشق ہونا بے طرح دیکھتے ہو آئنہ تم تو بیٹھے زلف الجھی ہے تو شانے سے اسے سلجھا لو شام کا وقت ہے ہو کوستے کس کو بیٹھے جاؤں کیا ایک تو دربان ہے اور ایک رقیب جان لینے کو فرشتے ہیں وہاں دو ...

مزید پڑھیے

توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا

توڑنے گل کو جو وہ شوخ طرحدار جھکا ان کے قدموں پہ سر بلبل گلزار جھکا دیکھ لی تیرے نشے میں جو گلابی آنکھیں آنکھ کو شرم سے لے نرگس بیمار جھکا اس کی پاپوش کی چمکی جو دم صبح کرن چومنے اس کے قدم مطلع انوار جھکا دور ساقی میں مرے جھکنے لگا ایک پہ ایک جام ساغر پہ ہے ساغر پہ ہے وہ یار ...

مزید پڑھیے

انہیں باتوں سے اس کی خو بگڑی

انہیں باتوں سے اس کی خو بگڑی کبھو ہم سے بنی کبھو بگڑی کیوں گلا غیر کا کیا جائے مفت اس سے پئے عدو بگڑی ہجر میں ہار کر جو صبر کیا وصل کی ہم سے آرزو بگڑی چین سے دل تو اس کے ساتھ گیا جان آفت رسیدہ تو بگڑی قدر گوہر ہے آب سے تنویرؔ پھر رہا کیا جب آبرو بگڑی

مزید پڑھیے

دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے

دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے نہ ہوئے ہم تو پھر کسو سے ملے ساتھ اس کے پلے ہیں لاکھوں دل کیوں نہ رنگ حنا لہو سے ملے واہ یہ شکل یہ دغا بازی دل کسو کا لیا کسو سے ملے ویسے ہی حسرتوں کے خون ہوئے ان سے تھے جیسے آرزو سے ملے لو گئے تھے نماز کو تنویرؔ مے کدہ کے ہیں روبرو سے ملے

مزید پڑھیے

شوخیٔ گرمئی رفتار دکھاتے نہ چلو

شوخیٔ گرمئی رفتار دکھاتے نہ چلو فتنۂ حشر کو سیماب بتاتے نہ چلو غیر بھی کرنے لگے نقش قدم پر سجدے نقش حب دل پہ رقیبوں کے بٹھاتے نہ چلو چلتے چلتے تو نہ غیروں سے ہنسو بہر خدا خاک میں اشک نمط مجھ کو ملاتے نہ چلو نگہ گرم سے گلشن میں نہ دیکھو گل کو آتش رشک سے بلبل کو جلاتے نہ چلو اس کے ...

مزید پڑھیے

ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں

ہو نہ کچھ اور اس آغاز کا انجام کہیں ساقیا لب سے لگا دے تو لب جام کہیں وہ دل آرام جو پہلو میں نہیں ہے اپنے دل بیتاب کو آتا نہیں آرام کہیں صدمہ ہائے شب ہجراں سے گرا جاتا ہوں اے تمنائے شب وصل مجھے تھام کہیں شام سے ہوتی ہیں دل پر جو بلائیں نازل کھول بیٹھے نہ ہوں وہ زلف سیہ فام ...

مزید پڑھیے

نہ توڑ شیشوں کو او گل بدن تڑاق پڑاق

نہ توڑ شیشوں کو او گل بدن تڑاق پڑاق یہ دل شکن ہے صدائے شکن تڑاق پڑاق برنگ غنچۂ گل چپ ہو کیوں جواب تو دو مرا سخن کا ہے یہ ہو سخن تڑاق پڑاق ابھی اٹھے ترا بیمار ناتواں غش سے جو دے تو بوسہ سیب ذقن تڑاق پڑاق ہزاروں شیشۂ دل کوہ غم پہ اے تنویرؔ مدام توڑے ہے چرخ کہن تڑاق پڑاق

مزید پڑھیے

نہ سنی پر نہ سنی اس نے دل زار کی عرض

نہ سنی پر نہ سنی اس نے دل زار کی عرض کون سنتا ہے بھلا ایسے گنہ گار کی عرض چلو آہستہ کہ ہوتی ہے قیامت برپا فتنۂ حشر نے یہ اس سے کئی بار کی عرض جنبش لب ہے دم نزع یہ کچھ کہتا ہے سن تو لو اپنے ذرا مائل گفتار کی عرض ذکر اغیار سے چھڑکا کئے زخموں پہ نمک دم کشتن نہ سنی کشتۂ تلوار کی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 556 سے 6203