سر کاکل کو نہ او شوخ طرحدار تراش

سر کاکل کو نہ او شوخ طرحدار تراش
کاٹ کھائے گا یہ اڑ کر نہ سر مار تراش


اب تو سر ہوتے ہیں دس بیس کے ہر روز قلم
خوب یہ تو نے نکالی ہے جفا کار تراش


خط تو یہ میں نے ہی لکھا تھا خطا‌ وار ہوں میں
ہاتھ قاصد کے لئے تو نے ستم گار تراش


ماہ نو چوم ہی لے اس کو فلک سے گر کر
پھینک دیوے جو وہ ناخن پس دیوار تراش


تیزیٔ تیغ ہے کیا چال میں اس کافر کی
سیکڑوں دل دیے اس نے دم رفتار تراش


قتل کرتا ہے تو کر شوق سے تنویرؔ کو تو
رنج آمیز نہ باتیں بت عیار تراش