آج اس وقت وہ جب یاد آیا
آج اس وقت وہ جب یاد آیا ''دل کے دکھنے کا سبب یاد آیا'' یاد پڑتا ہی نہیں ہے مجھ کو کب میں بھولا اسے کب یاد آیا جن کی تعبیر سے آنکھیں نم ہیں پھر وہی خواب طرب یاد آیا آج یہ رات کٹے گی کیوں کر آج پھر وہ بے سبب یاد آیا
آج اس وقت وہ جب یاد آیا ''دل کے دکھنے کا سبب یاد آیا'' یاد پڑتا ہی نہیں ہے مجھ کو کب میں بھولا اسے کب یاد آیا جن کی تعبیر سے آنکھیں نم ہیں پھر وہی خواب طرب یاد آیا آج یہ رات کٹے گی کیوں کر آج پھر وہ بے سبب یاد آیا
لب خموش مرا بات سے زیادہ ہے ترا فراق ملاقات سے زیادہ ہے یہ اک شکست جو ہم کو ہوئی محبت میں زمانے بھر کی فتوحات سے زیادہ ہے بہت ہی غور سے سنتا ہوں دل کی دھڑکن کو یہ اک صدا سبھی اصوات سے زیادہ ہے امید بھی ترے آنے کی آج کم ہے ادھر یہ دل کا درد بھی کل رات سے زیادہ ہے میں اس سے عشق تو ...
کیوں لگے ہے مجھ کو اکثر یہ جہاں دیکھا ہوا چاند سورج کہکشائیں آسماں دیکھا ہوا دیکھا ہے جب سے تمہیں لگتا ہے کچھ دیکھا نہیں زعم تھا مجھ کو کہ ہے سارا جہاں دیکھا ہوا تم مجھے حیران بھی کر سکتے ہو سوچا نہ تھا ایسا چہرہ آنکھ نے تھا ہی کہاں دیکھا ہوا دیکھ رکھے دوستی کے نام پر دھوکے ...
عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے غم کبھی خوشی ہر ایک شے ہے بے یقیں ہر ایک چیز عارضی یہ کارواں رکے کہاں کہ منزلیں ہیں بے نشاں چھپے ہوئے ہیں راستے یہاں وہاں دھواں دھواں خطر ہیں کتنے راہ میں سفر ہے کتنا اجنبی عجیب ہے یہ زندگی یہ گال زرد زرد سے اٹے ہوئے ہیں گرد سے ستم رسیدہ دل یہاں تڑپ رہے ہیں ...
باقی سب کچھ فانی ہے ایک وہی لافانی ہے سنتے رہتے ہیں ہم سب دنیا ایک کہانی ہے شرم و حیا سب قصے ہیں سوکھا آنکھ کا پانی ہے شعلہ نہیں شبنم بھی نہیں بس بے رنگ جوانی ہے نغمہ کوئی چھیڑو درویشؔ محفل محفل ویرانی ہے
کون سے دل سے کن آنکھوں یہ تماشا دیکھوں سچ جو بولیں سر بازار انہیں رسوا دیکھوں میری آشفتہ سری مجھ سے یہی چاہتی ہے شہروں اور گلیوں میں ہر دم ترا چرچا دیکھوں کیا یہ ممکن ہے کہ میخانے میں پیاسا رہ کر جام پہ جام میں اوروں کو لنڈھاتا دیکھوں میری آشفتہ مزاجی کا تقاضا ہے یہی سر میں ہر ...
جینا اب دشوار ہے بابا فکروں کی بھر مار ہے بابا کھوٹے سکے خوب چلیں گے اب اپنی سرکار ہے بابا دین کو بیچو دنیا بیچو اب یہ کاروبار ہے بابا آج کی یہ تہذیب تو جیسے گرتی ہوئی دیوار ہے بابا مفلس کی آواز دبی ہے پیسوں کی جھنکار ہے بابا کس کو سلیقہ ہے پینے کا کون یہاں مے خوار ہے ...
میرا غم ساری کائنات کا غم میں نہیں جانتا نجات کا غم جن کی خاطر یہ عمر گزری ہے ان کو ہوتا ہے بات بات کا غم میں تو ہارا ہوں جیت کر تم کو کیا مٹے گا کبھی یہ مات کا غم اب تو ہوں میں مشین کا پرزہ ہے کہاں مجھ کو اپنی ذات کا غم خواہشوں کے غلام ہیں ہم سب پھر بھی ہم کو ہے خواہشات کا غم
سرسبز تھے حروف پہ لہجے میں حبس تھا کیسے عجب مزاج کا مالک وہ شخص تھا پھر دوسرے ہی دن تھا عجب اس شجر کا حال سبزے کی ان منڈیروں پہ پت جھڑ کا رقص تھا تجزیہ کرتا ہوں تو ندامت ہی ہوتی ہے در اصل میرے اپنے روئیے میں نقص تھا گو وہ رہا سدا سے مرا منحرف مگر اس کی ہر ایک طرز پہ میرا ہی عکس ...
ڈوبا ہوں تو کس شخص کا چہرہ نہیں اترا میں درد کے قلزم میں بھی تنہا نہیں اترا زنجیر نفس لکھتی رہی درد کی آیات اک پل کو مگر سکھ کا صحیفہ نہیں اترا انسان معلق ہیں خلاؤں کے بھنور میں اشجار سے لگتا ہے کہ دریا نہیں اترا سنتے ہیں کہ اس پیڑ سے ٹھنڈک ہی ملے گی شاخوں کے دریچوں سے تو جھونکا ...