قومی زبان

احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان

احباب ہو گئے ہیں بہت مجھ سے بد گمان قینچی کی طرح چلنے لگی ہے مری زبان اک بات میری ان کی توجہ نہ پا سکی کہتے تھے لوگ ہوتے ہیں دیوار کے بھی کان کھڑکی کو کھول کر تو کسی روز جھانک لو خالی ہے آج کل مرے احساس کا مکان تنہا اداس کمرے میں بیٹھا ہوا تھا میں اک لفظ نے بکھیر دئے مشک و ...

مزید پڑھیے

سوچ کا زہر نہ اب شام و سحر دے کوئی

سوچ کا زہر نہ اب شام و سحر دے کوئی عام ہے بے خبری ایسی خبر دے کوئی سیر آفاق ہو کیوں مشغلۂ فکر و نظر کاش میرے پر پرواز کتر دے کوئی دور تک بکھرا ہوا ریت کی صورت ہے وجود خود کو آواز ادھر دے کہ ادھر دے کوئی میرے الفاظ نہ کر پائے معانی کو اسیر کتنے دریاؤں کو اک کوزے میں بھر دے ...

مزید پڑھیے

کر گیا صد پارہ جو پل میں دل نخچیر ہے

کر گیا صد پارہ جو پل میں دل نخچیر ہے صید گاہ عشق سے نکلا ہوا اک تیر ہے ہو گیا پیوست پیکاں تیر حسن یار کا یہ مرا ہے خواب یا آئینۂ تعبیر ہے قابل تحسین کب تھی داستاں مے خوار کی کچھ ہے ساقی کا کرم کچھ شوخیٔ تحریر ہے کر نہیں سکتے علاج اس کا طبیبان جہاں اس مریض عشق کو یہ درد ہی اکسیر ...

مزید پڑھیے

گر میں ان سے ملا نہیں ہوتا

گر میں ان سے ملا نہیں ہوتا عشق کا سانحہ نہیں ہوتا روز ہوتے ہیں حادثے لیکن جانے کیوں وہ مرا نہیں ہوتا بد گماں مجھ سے کر گیا کوئی ورنہ وہ یوں خفا نہیں ہوتا سوز ہم کو ملے مگر دائم گاہے گاہے بکا نہیں ہوتا چاہتیں ہیں کہ جو بدلتی ہیں عشق تو بارہا نہیں ہوتا جانے کیسے وفا پرست ہیں ...

مزید پڑھیے

لوگ کتنے حسین ہوتے ہیں

لوگ کتنے حسین ہوتے ہیں جو دلوں کے مکین ہوتے ہیں باز رہتے ہیں جو محبت سے نفرتوں کے امین ہوتے ہیں عشق بھی لوگو اک عبادت ہے اس کے منکر لعین ہوتے ہیں

مزید پڑھیے

خود سے بھی اک بات چھپایا کرتا ہوں

خود سے بھی اک بات چھپایا کرتا ہوں اپنے اندر غیر کو دیکھا کرتا ہوں اپنی صورت بھی کب اپنی لگتی ہے آئینوں میں خود کو دیکھا کرتا ہوں ارمانوں کے روپ نگر میں رہ کر بھی خود کو تنہا تنہا پایا کرتا ہوں گلشن گلشن صحرا صحرا برسوں سے آوارہ آوارہ گھوما کرتا ہوں فرضی قصوں جھوٹی باتوں سے ...

مزید پڑھیے

پھینکیں بھی یہ لباس بدن کا اتار کے

پھینکیں بھی یہ لباس بدن کا اتار کے کب تک رہیں گرفت میں لیل و نہار کے تسخیر کائنات و حوادث کے باوجود حد پا سکے نہ جبر و غم و اختیار کے بکھرا ہمیشہ ریگ کی صورت ہواؤں میں ٹھہرا کبھی نہ مثل کسی کوہسار کے تنہا کھڑا ہوا ہوں میں دشت خیال میں خاموش ہو چکا بھی سمندر پکار کے تنویرؔ آگہی ...

مزید پڑھیے

تو کہاں ہے مجھے او خواب دکھانے والے (ردیف .. ب)

تو کہاں ہے مجھے او خواب دکھانے والے آ کہ دکھلاؤں تجھے میں ترے وعدوں کی کتاب یاد ہیں تجھ کو وہ مہکے ہوئے رنگین خطوط کس قدر پیار سے لاتی تھیں نصابوں کی کتاب اب کوئی خواب میں دیکھوں کہاں فرصت ہے مجھے میری بے خواب نگاہوں میں ہے یادوں کی کتاب یہ تو ممکن ہے بیاں ہجر کی روداد کروں ہے ...

مزید پڑھیے

اچھے لگو گے اور بھی اتنا کیا کرو

اچھے لگو گے اور بھی اتنا کیا کرو آنکھوں کو میری اپنے لیے آئنہ کرو وعدے وفا کیے نہ کبھی تم نے جان جاں دل پھر بھی چاہتا ہے کہ وعدہ نیا کرو رہ کر تمہارے پاس بھی رہتا ہوں میں کہاں مل جاؤں پھر سے تم کو بس اتنی دعا کرو یہ دور اشتہار ہے گر کچھ نہ کر سکو خود اپنے منہ سے تم میاں مٹھو بنا ...

مزید پڑھیے

نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے

نمی آنکھوں کی بادہ ہو گئی ہے پرانی یاد تازہ ہو گئی ہے ہے مجھ کو اعتراف جرم الفت خطا یہ بے ارادہ ہو گئی ہے چلے آؤ ہجوم شوق لے کر رہ دل اب کشادہ ہو گئی ہے گماں ہونے لگا ہے ہر یقیں پر تری ہر بات وعدہ ہو گئی ہے ملے ہو جب بھی تنہائی میں درویشؔ کوئی تقریب سادہ ہو گئی ہے

مزید پڑھیے
صفحہ 553 سے 6203