کیوں لگے ہے مجھ کو اکثر یہ جہاں دیکھا ہوا
کیوں لگے ہے مجھ کو اکثر یہ جہاں دیکھا ہوا
چاند سورج کہکشائیں آسماں دیکھا ہوا
دیکھا ہے جب سے تمہیں لگتا ہے کچھ دیکھا نہیں
زعم تھا مجھ کو کہ ہے سارا جہاں دیکھا ہوا
تم مجھے حیران بھی کر سکتے ہو سوچا نہ تھا
ایسا چہرہ آنکھ نے تھا ہی کہاں دیکھا ہوا
دیکھ رکھے دوستی کے نام پر دھوکے بہت
عشق میں بھی دل کو میں نے بد گماں دیکھا ہوا
جس کے باعث اک چکوری چاند کی جانب اڑے
ہم نے گوہرؔ ہے وہ جذب عاشقاں دیکھا ہوا