کر گیا صد پارہ جو پل میں دل نخچیر ہے
کر گیا صد پارہ جو پل میں دل نخچیر ہے
صید گاہ عشق سے نکلا ہوا اک تیر ہے
ہو گیا پیوست پیکاں تیر حسن یار کا
یہ مرا ہے خواب یا آئینۂ تعبیر ہے
قابل تحسین کب تھی داستاں مے خوار کی
کچھ ہے ساقی کا کرم کچھ شوخیٔ تحریر ہے
کر نہیں سکتے علاج اس کا طبیبان جہاں
اس مریض عشق کو یہ درد ہی اکسیر ہے
جس نے دیکھا اک نظر پھر سوچتا ہی رہ گیا
کتنا دل کش شخص ہوگا جس کی یہ تصویر ہے
پھونک دے برق تپاں اس کے قفس کو پھونک دے
مبتلائے عشق جو ہے واجب تعزیر ہے
مل گیا گوہرؔ تمہیں بھی زینۂ معراج عشق
غیر سمجھے تھے کہ تیری آہ بے تاثیر ہے