قومی زبان

سکوت شب میں

وہ ایک رات تھی ایسی کہ قدر و اسریٰ نے نگاہ اپنی جمائی تو پھر ہٹائی نہیں وہ ریگزار کے سینے پہ نسب اک خیمہ نہ جانے کون سی تاریخ لکھنے والا تھا سکوت شب میں بھی آہٹ تھی انقلابوں کی سجی تھی بزم وہاں آسماں جنابوں کی ہوائے دشت بھی آہستہ پا گزرتی تھی سویرے معرکہ ہونا تھا حق و باطل ...

مزید پڑھیے

کبھی نہ آئیں گے جانے والے

کہاں گئے وہ وطن کی عصمت بچانے والے وقار و عظمت بڑھانے والے وفا کا پرچم اٹھانے والے انہیں بلاؤ ہم ان کی آنکھوں سے آج اپنے وطن کو دیکھیں کہاں گئے وہ جو داستان وفا کو اپنے لہو سے تحریر کر رہے تھے جو اپنی آنکھوں کی قیمتوں پر بھی خواب تعبیر کر رہے تھے جو روشنی کے سفیر بن کر دلوں میں ...

مزید پڑھیے

وہ پیاس کروٹ بدل رہی ہے

وہ ایک ننھی سی پیاس جس نے سراب صحرا کی داستانوں کو اپنے خوں سے رقم کیا تھا جفا کے تیروں کو خم کیا تھا وفا کی آنکھوں کو نم کیا تھا بلند حق کا علم کیا تھا وہ پیاس کروٹ بدل رہی ہے اب اپنے پیروں سے چل رہی ہے وہ پیاس بچپن میں جس نے ساتوں سمندروں کا سفر کیا تھا وہ پیاس جس کی خموشیوں نے ...

مزید پڑھیے

سسکتی مظلومیت کے نام

عجب فضا ہے عجب اداسی عجیب وحشت برس رہی ہے عجب ہے خوف و ہراس ہر سو عجیب دہشت برس رہی ہے عجب گھٹن ہے عجب تعفن میں کس جگہ کس دیار میں ہوں کہ جیسے مقتل میں آ گیا ہوں میں قاتلوں کے حصار میں ہوں پھٹی پھٹی سی یہ سرخ آنکھیں سنہرے خوابوں کو رو رہی ہیں گناہ کیسے ہوئے ہیں سرزد یہ کن عذابوں کو ...

مزید پڑھیے

بس ذرا دیر سے احساس ہوا تھا مجھ کو

بس ذرا دیر سے احساس ہوا تھا مجھ کو وہ بھی میری ہی طرح سوچ رہا تھا مجھ کو یہ ہی اک شخص بھٹکتا ہے جو صحرا صحرا ایک دن شہر تمنا میں ملا تھا مجھ کو میں تو موجود تھا ہر دم ترے افسانے میں میرے راوی نے مگر مار دیا تھا مجھ کو میں نے جب اس کو بتایا تو ذرا ابر چھٹا اس نے اوروں کی زبانی ہی ...

مزید پڑھیے

یہ آرزو تھی اسے آئنہ بناتے ہم

یہ آرزو تھی اسے آئنہ بناتے ہم اور آئینے کی حفاظت میں ٹوٹ جاتے ہم تمام عمر بھٹکتے رہے یہ کہتے ہوئے کہ گھر بناتے سجاتے اسے بلاتے ہم ہر آدمی وہاں مصروف قہقہوں میں تھا یہ آنسوؤں کی کہانی کسے سناتے ہم بگاڑے بیٹھے تھے تقدیر اپنے ہاتھوں سے ہتھیلیوں کی لکیریں کسے دکھاتے ہم خدا نے ...

مزید پڑھیے

نظر نظر سے ملا کر کلام کر آیا

نظر نظر سے ملا کر کلام کر آیا غلام شاہ کی نیندیں حرام کر آیا کئی چراغ ہوا کے اثر میں آئے تھے میں ایک جگنو کو ان کا امام کر آیا یہ کس کی پیاس کے چھینٹے پڑے ہیں پانی پر یہ کون جبر کا قصہ تمام کر آیا اترتی شام کے سائے بہت ملول سے تھے سو ایک شب میں وہاں بھی قیام کر آیا یہ اور بات مرے ...

مزید پڑھیے

چشم بینا! ترے بازار کا معیار ہیں ہم

چشم بینا! ترے بازار کا معیار ہیں ہم دیکھ ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خریدار ہیں ہم کیسے تاریخ فراموش کرے گی ہم کو تیغ پر خون سے لکھا ہوا انکار ہیں ہم تم جو کہتے ہو کہ باقی نہ رہے اہل دل زخم بیچو گے چلو بیچو خریدار ہیں ہم یوں ہی لہروں سے کبھی کھیلنے لگ جاتے ہیں ایک غرقاب ہوئی ناؤ کی ...

مزید پڑھیے

کس شان سے جیتے تھے یہاں خوار ہوئے کیوں

طارقؔ کیا کبھی قوم کا نوحہ بھی لکھو گے یا بس در دولت کا قصیدہ ہی لکھو گے انگشت نمائی سدا اغیار پہ ہوگی یا جرم کبھی کوئی تم اپنا بھی لکھو گے جو دل پہ گزرتے ہیں وہ صدمات لکھو اب چھوڑو یہ قصیدہ کوئی حق بات لکھو اب کیوں اپنی وفاؤں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں کیوں ہم پہ ہی یہ ظلم و ستم ٹوٹ رہے ...

مزید پڑھیے

ذہن و خیال سے کوئی چہرہ نہ جا سکا

ذہن و خیال سے کوئی چہرہ نہ جا سکا اور اس کے آگے ہم سے بھی سوچا نہ جا سکا اک جان تھی جو نذر گزاری نہ جا سکی اک قرض تھا جو ہم سے اتارا نہ جا سکا ہم نے ہزار جشن سحر کے منا لیے اور بام و در سے رات کا سایہ نہ جا سکا کتنے تباہ ہوں گے ہم اک شخص کے لیے خود سے کبھی سوال یہ پوچھا نہ جا سکا کچھ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 549 سے 6203