قدرت کی فلیش لائٹ

رات کے نقش اجال کر
بالٹی میں بھر دیے گئے
چاند جن میں
اپنی کرنوں کے موتی اچھالتا تھا
جلتی ہوئی ہتھیلی پر کس نے رکھا تھا چاند کو
وہ ہاتھ اپنے مل رہی تھی
آئینہ دیکھتا تھا
منظروں کے دوسری طرف
بھیڑیا اپنی گمبھیر آواز فضا میں بکھیرتا
بستیوں میں خوف انڈیلتا تھا
اسکرین کا پردہ بدل دو
آئینے کو دیکھنے دو
صبح نو موتیے کی تازہ خوشبو
دالان میں ابا جی کے ساتھ چائے پینا
اسکول کا بیگ اٹھائے لمبی سڑک کا سفر
اسے دیکھنے دو
وہ سبز کھلکھلاتے منظر
ارے
لیمپ بجھا دیا گیا
سبھی منظر الٹ دیے گئے
اے چکر لگاتی ہوئی چمگادڑ تو ہی بتا
قدرت کی فلیش لائٹ کس کے ہاتھ میں ہے