محبت ختم ہے تم پر
تم کیا جانو
آواز سفر کرتی ہے
دور مندروں میں بجتی گھنٹیوں کی طرح
جسم بولتے ہیں
دریا کی لہریں جب کناروں سے ٹکراتی ہیں
تلاطم خیز موجوں کا عجب اک شور اٹھتا ہے
اور اس پر پڑتی کمروں کی روشنی
خاک دریا میں روح پھونک دیتی ہے
تم بچوں کو پریوں چاند ستاروں کی کہانیاں سناتے ہو
بے خبر
یہ سبھی تمہارے خلاف دوہری چال چل رہے ہیں
تم قدیم دھنوں میں
پیش دوشیزگی دوشیزگی کے رنگ دیتے ہو
اور آرام طلب گھٹاؤں سے گریزاں ہو
جو تمہارے رستے میں خالی پڑے بینچوں پر ماتم کرتی ہیں
کیٹس اور کولریج تمہارا کیا بگاڑیں گے
عقل و دانش کے پہرے دار تمہاری حفاظت کر رہے ہیں
تمہیں خواب کی تحویل میں کیسے لائیں
تم اور محبت
اپنی آنکھیں سورج کی طرف رکھو
شکر دوپہر
سناٹوں میں دیوانہ وار اس کی گلی تلاش کرو گے
تم اک دن وحشت کے ہاتھوں مار دیے جاؤ گے