قضا کے تیر جب جب ابروئے قاتل سے نکلے ہیں
قضا کے تیر جب جب ابروئے قاتل سے نکلے ہیں
جزاک اللہ کے نعرے دل بسمل سے نکلے ہیں
کچھ ایسے کام میرے جذبۂ کامل سے نکلے ہیں
وہ میرے ساتھ ہی ہنگامۂ محفل سے نکلے ہیں
فضائیں گونجتی ہیں اور فطرت رقص کرتی ہے
کچھ ایسے درد کے نغمے ہمارے دل سے نکلے ہیں
جلے ہیں دوست بھی دشمن بھی پروانے بھی شمعیں بھی
غرض سب خاک کر کے آپ کی محفل سے نکلے ہیں
محبت ابتدا اپنی محبت انتہا اپنی
اسی منزل کو جانا ہے اسی منزل سے نکلے ہے
زمین سنگ سے گلہائے نغمہ کی توقع کیا
بڑے آسان مصرعے بھی بڑی مشکل سے نکلے ہیں