قرض کی مہلت گزر گئی ہے
قرض کی مہلت گزر گئی ہے
بھائی مدت گزر گئی ہے
وصل کے دعویدار کہو کیا
ہجر کی عدت گزر گئی ہے
ہم تو ایسے رونے لگے ہیں
جیسے محبت گزر گئی ہے
دشت جنوں! مجنوں کے غم میں
کیا بے وحشت گزر گئی ہے
عشق سے بے پروا لوگوں کی
عمر سلامت گزر گئی ہے
اے کفار تشنہ بدناں
شب جہالت گزر گئی ہے
گھور اندھیرے میں پرچھائیں
کر کے حرکت گزر گئی ہے
دل سے حسرت کا جانا تھا
آنکھ سے حیرت گزر گئی ہے
شفقؔ! مہورت کے چکر میں
ساعت ہجرت گزر گئی ہے