قلب انساں میں جب روشنی ہو گئی

قلب انساں میں جب روشنی ہو گئی
دور دنیا کی سب تیرگی ہو گئی


نعمت غم ہر اک کا مقدر نہیں
یہ جسے بھی عطا ہو گئی ہو گئی


منزلیں رہ گئیں بن کے گرد سفر
راہبر میری وارفتگی ہو گئی


مٹ گئی دل سے ہر آرزوئے طرب
غم کی لذت سے جب آگہی ہو گئی


جب بھلایا انہیں ظلمتیں چھا گئیں
جب وہ یاد آ گئے روشنی ہو گئی


ان کے دامن کی خوشبو سے مہکی فضا
ان کے رخ کی ضیا چاندنی ہو گئی


دیر و کعبہ سے ہم کو نہیں کچھ غرض
سر جہاں جھک گیا بندگی ہو گئی


راس آتا ہے صابرؔ تبسم کسے
آفت جاں گلوں کی ہنسی ہو گئی